PopAds Takeover 3354134 آزاد خیالی کی عالمی روایت .قسط .1

Adsterra

آزاد خیالی کی عالمی روایت .قسط .1

 


آزاد خیالی کے متعلق چند گذارشات

زیرِ نظر کتاب آزاد خیالی کے متعلق ہے۔ یہ تنقیدی سوچ اور آزادانہ دلائل دینے کے بارے میں ہے۔ یہ اُن بہادر مردوں اور عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے بادشاہت اور کلیسا دونوں کے دعوؤں‘ خیالات اور عقائد پر سوالات اُٹھانے‘ اُن کو چیلنج کرنے‘ یہاں تک کہ اُنھیں شکست دینے کی جرأت کی ۔یہ کتاب بنی نوع انسان کی زندگی کے معانی اور مقاصد سمجھنے سے متعلق ہے اور آخر میں یہ اُس سوچ اور ردِّعمل کی حمایت کرتی ہے جس نے جمہوریت اور مرد و زن کے حق ِخوداختیاری کو جنم دیا ہے تاکہ وہ اپنی بہترین استعداد کے مطابق آگے بڑھ سکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو (خود سے ) مختلف رہنے اور اپنی رائے کا اظہار کھلے عام اور انتقام کے خوف کے بغیر کرنے کی آزادی دیں۔
آزاد خیالی بے بنیاد اندازوں اور سادہ لوحی پر مبنی نہیں ہے۔ یہ عقل ‘دلیل‘ تجزیے اور پرکھ کی بنیاد پر کیے جانے والے قیاسات پر مبنی ہے۔بے بنیاد خیالات یا وہ خیالات جو ْشایدٗ اور ْغالباً ٗ پر مشتمل ہوں آزاد خیالی کی اساس نہیں ہیں۔ آزاد خیالی کے لیے منظّم سوچ ‘ محتاط تجزیات اور نئی معلومات دستیاب ہونے کی صورت میں خود کو تبدیل کرنے اور آگے بڑھنا ضروری ہے۔ یہ سوال کرنے والے کو ایسی دلچسپ مہم پر لے جاتی ہے‘ جو ذہن اور روح کو زندہ اور کشادہ رکھتی ہےکیونکہ ایسا انسان ہمیشہ کھوجتا‘ سوال کرتا اورنامعلوم کی تلاش کرتا رہتا ہے ۔ وہ ہمیشہ اِس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ ’حتمی‘ جواب کبھی بھی حتمی نہ ہوں گے اور ’حتمی سچاّئی ‘ جو بھی ہوٗ وہ ہمیشہ ہماری پہنچ سے باہر رہے گی۔ آزاد خیالی ہمیشہ سب سے آگے اور اگلے محاذوں پر ہوتی ہے۔ یہ ماضی کو جانتے اور اُس کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل کو ہمیشہ خوش آمدید کہتی ہے۔بعض اوقات اِس میں ماضی کی بات کو ’قدیم ‘ اور ’قابلِ عزّت‘ قرار دے کر قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔جس چیز کو ’پختہ عقیدہ ‘ یا حتمی مقتدر بیان قرار دے دیا گیا ہوٗ یہ اُس دعوے کو لازمی طور پر قبول کرنے کی بجائے اُس کی اہمیت اور قدر کو پہچانتی ہے۔
’’آزاد خیالی‘‘ کی اصطلاح انگلستان میں سترھویں صدی کے اختتام پر وجود میں آئی ۔ آکسفورڈ انگریزی لغت میں آزاد خیال شخص کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
’’ایسا شخص جو مذہبی معاملات کے سلسلے میں اپنے دلائل کو با اختیار لوگوں یااداروں کے قابو میں نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا منصب ہے جس کا اٹھارویں صدی کے آغاز پربالخصوص ملحدوں اور عیسائیت کو رَدّ کرنے والے دوسرے افراد نے اعلان کیا تھا۔‘‘
’’ویبسٹر نیو کالجیئٹ ڈکشنری‘‘ اِس لفظ کو دو الفاظ “free” اور “Thought” میں تقسیم کرتی ہےاور اِس کے معنی ’آزاد سوچ یا غیر راسخ سوچ‘ بیان کرتی ہے۔ اِس کے مطابق ’آزاد خیال‘وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے خیالات کی بنیاد کسی اتھارٹی سے الگ رہ کر دلائل کی بنیاد پر رکھتا ہے ‘ خاص طور پر وہ جو مذہبی عقائد کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور اُن کو رَدّ کرتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس کا مترادف “Atheist” (دہریہ ) دیکھیں۔دوسری امریکی لغات بھی ایسے ہی معانی بیان کرتی ہیں۔
پس آزاد خیالی کا گہرا تعلّق’تنقیدی سوچ‘ اور شاید ’آزاد سوچ‘ سے بھی ہے اور یہ دونوں ہی ایک فرد کو ’اپنے بارے میں سوچنے‘ کی دعوت دیتی ہیں تاکہ وہ دلائل پر مبنی نتائج پر پہنچ سکے۔ اِس کے علاوہ یہ کھلی تحقیق کرنے اور دوسروں کے عقائد اور خیالات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کرنے کا پرچار کرتی ہے۔آزاد خیالی اِس طرح کے بنیادی سوالات اُبھارتی ہے جیسے:
• ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے؟
• اِس نتیجے کے حق میں کون سےشواہد موجود ہیں؟
• اِس عقیدے کی بنیاد کن بنیادی مفروضوں پر ہے اور ہم اُن کی کس طرح تصدیق کر سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
آج کل آزاد خیالی میں ہم تجزیے کے لیے عقل اور دلیل استعمال کرتے ہیں اور ایک ایسا سائنسی طریقہ استعمال کرتے ہیں جو آزادانہ پرکھ اور پھر سے تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ ایسے طریقے استعمال کرنے سے نئی تحقیقات کی وجہ سے آنے والی تبدیلیوں کے لیے ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔
موجودہ تحقیق سے یہ ثابت ہو گا کہ تنقیدی اور آزادانہ سوچ دونوں ہی نسلِ انسا نی کی طرح قدیم ہیں۔جس بھی ثقافت اورتہذیب میں لکھا ہوا مواد پایا جاتا ہے‘ وہاں مروّجہ نظریات اور عقائد کو چیلنج کرنے کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ عقائد کو تحریر کیے جانے سے قبل اُن پر کی جانے والی مدلّل بحث ہزاروں سال جاری رہی ہو گی۔جو بات تکرار سے ثابت ہوتی ہے ٗ وہ یہ ہے کہ اقتدار اور طاقت نے جس چیز کو حتمی سچاّئی کہا‘ اُسے قبول نہ کرنے سے ہی فطری دنیا سے متعلّق معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔یہی نہیں بلکہ یہ اخلاقیات‘ انسانی روّیوں‘ رشتوں‘ آزادی اور معیارِ زندگی میں انسانی ترقی کا باعث بھی بنی ہے۔
بد قسمتی سے آج بہت سے لوگ زندگی کے تمام شعبوں میں آزاد خیالی یا تنقیدی سوچ کو منطبق کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم بہت آسانی سے اُس چیز کے عادی ہو جاتے ہیں جسے ہماری ثقافت (امریکی ثقافت ) کی مخصوص شاخ صحیح‘ درست‘ یا حتمی سچائی قرار دے دیتی ہے ۔ رویّوں اور عقائد کو غیر تنقیدی طور پر قبول کرنے سے تعصّب‘ نسلی منافرت ‘ راسخ العتقادی ‘ غیر سائنسی روّیوں اور ایسی دردمندی اور سوچ میں کمی سامنے آتی ہے جو دوسروں کے حقوق اور آزادی کو سلب کرنے کو رواج دیتی ہے۔پس کلیسا یا ریاست جن عقائد‘ رویّوں‘ خیالات‘ طورطریقوں‘ طرزِ زندگی اوررہن سہن کی حمایت یا مذمت کرتی ہے‘ اُنھیں تنقیدی تجزیے یا پرکھ کے بغیر قبول کر لیا جاتا ہےخواہ اُن کے معاشرے اور انسانی زندگی پر جس طرح کے ہی اثرات مرتب ہوں۔یہیں پر آزاد خیالی اپنا راستہ جدا کرلیتی ہے۔ اِس کے مطابق کوئی بھی نظریہ ‘ نقطہ نظر یا خیال چیلنج کیا جا سکتا ہے اور اُسے عقل‘ دلیل اور سائنسی تجزیے اور انسانی فلاح اور آزادی پر اُس کے اثرات کی بنیاد پر قبول یا رَدّ کیا جا سکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments

Close Menu